افسا نہ   تاریکی    از:۔ایم مبین


راستےمیں رگھو ویر مل گیا تھا ۔
رگھو ویر کو دیکھ کر وہ پہچان ہی نہیں سکے۔ وہ اتنا بدل گیا تھا۔ جب وہ ان کےساتھ کام کرتا تھا تو دبلا پتلا ہوا کرتا تھا۔ جسم پر ٹھیک ڈھنگ کےکپڑےبھی نہیں ہوتےتھی۔
لیکن اسوقت اس کےجسم پر کافی قیمتی کپڑےتھی۔ اور جسم کےحجم میں کافی اضافہ ہو گیا تھا۔
انھوں نےہی اسےآواز دی ۔
” ارےرگھوویر ! “
” کون ارےشندےصاحب ! “رگھوویر اُنھیں دیکھ کر حیرت میں پڑگیا ۔
” یہ آپ ہیں ؟ “
” ہاں میں ہی ہوں ۔ “ اُن کےچہرےپر ایک پھیکی مسکراہٹ اُبھر آئی ۔
” یہ آپ نےاپنی کیا حالت بنا رکھی ہے؟ “ رگھو نےحیرت سےاُنھیں دیکھا ۔
بولا ۔ ” آپ کتنےدُبلےہوگئےہیں ، آنکھیں اندر دھنس گئی ہیں ۔ کیا آپ بیمار ہیں ؟ “
” دُنیا میں بیکاری سےبڑھ کر اور کیا بیماری ہوسکتی ہے؟ “ اُنھوں نےتاسف سےکہا ۔
” کیا آپ کےکیس کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا ؟ “ اس نےحیرت سےپوچھا ۔
” نہیں ‘ ‘ اُنھوں نےکہا پھر موضوع بدلنےکےلئےپوچھا ۔ ” اور بتاو ¿ ‘ کیسےبیت رہی ہے؟ “
” بھگوان کی دیا ہےشندےصاحب ۔ “ رگھو بولا ۔ ” ترقی ہوگئی ہے، ترقی کرکےہیڈ بن گیا ہوں ۔ بڑےلڑکےکو سوفٹ ویر کروا دیا تھا ‘ وہ ایک فرم میں لگ گیا ہے۔چھوٹا ہارڈ ویر کر رہا ہی۔ اس کی اپنی دوکان کھولنےکا اِرادہ ہے، چھوٹی لڑکی کالج کےآخری سال میں ہی، لال باغ والا کمرہ چھوڑ دیا ، وسئی میں ایک فلیٹ لےلیا ہوں ۔ “
گذشتہ پانچ سالوں کی کہانی رگھو نےچند جملوں میں بیان کردی اور باقی کا اندازہ اُنھوں نےاس کی حالت سےلگالیا ۔
پھر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنےکےبعد رگھو نےآخر تیر چلا ہی دیا ۔
” شندےصاحب ! میں آپ کو بار بار سمجھاتا تھا ۔ مانا ہم جہاں کام کرتےہیں وہاں پیسہ ہی پیسہ ہے۔ وہاں بیٹھ کر ہم اپنی کُرسی کےذریعہ بےشمار دولت کماسکتےہیں ۔لیکن وہ پیسہ ہمیں سکون نہیں دےسکتا ۔ کبھی نہ کبھی تو اس کا انجام برا ہی ہونا ہے۔ اور ہوا بھی وہی ۔ آپ رشوت لیتےپکڑےگئےاور معطل کردئےگئے۔ آپ کا کیس ابھی تک چل رہا ہےاور اب آپ خود کہتےہیں کہ اس کیس میں آپ کا بچنا مشکل ہے۔ آپ کو رشوت لینےکےجرم میں پانچ ، چھ سال کی قید ہوجائےگی ۔ نوکری سےنکال دئےجانےکےبعد آپ کا گھر ٹوٹ کر بکھر گیا ۔ میں وہ راستےپر نہیں چلا جس پر آپ جاتےتھے۔ آج بھی اپنےاُصولوں پر قائم ہیں‘ پہلےتکلیف کےدِن تھے، آج بھگوان نےراحت دےدی ہے۔ کاش آپ بھی میری رائےپر چلتے۔ “
گھر آکر وہ بہت دیر تک رگھو کےبارےمیں سوچتےرہے۔
کیا رگھو کی راہ پر چل کر اُنھیں وہی راحت ملتی جو رگھو کو ملی ہے؟ ممکن ہےمل جاتی ۔
اُنھوں نےجو راستہ اپنایا تھا اُس وقت اُنھوں نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ان کا انجام ایسا ہوسکتا ہے۔ کل ہی وہ اپنےوکیل سےمل آئےتھے۔
وکیل نےفیس کا مطالبہ کیا تھا ۔ جب اُنھوں نےاسےاپنی حالت بتائی تو وہ اُن پرغصہ ہوگیا تھا
” شندےصاحب ! آپ کا کیس آخری اسٹیج پر ہےاور اس اسٹیج پر آپ کو پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔ ہر فیصلہ آپ کو اپنےحق میں کروانا ہےتاکہ آپ باعزت طریقےسےدوبارہ ڈیوٹی پر جوائنٹ ہوجائیں اور آپ پر لگا رشوت لینےکا الزام جھوٹا ثابت ہوجائے۔ اس کےلئےعدالت کےکلرک ، چپراسی سےجج تک ہر کسی کو پیسہ دےکر فیصلہ آپ کو اپنےحق میں کرنا ہوگا اور آپ کہہ رہےہیں کہ آپ کےپاس پیسہ نہیں ہے۔ یاد رکھئےاس وقت آپ کےپاس پیسےکی کمی آپ کو مجرم ثابت کرسکتی ہی۔ آپ کو رشوت لینےکےجرم میں سزا ہوجائےگی اور آپ دوبارہ پھر کبھی نوکری پر جوائن نہیں ہوپائیں گے۔ “
لیکن وہ اسےکیا بتائیں۔اس وقت وہ پینےکےلےایک سگریٹ کےمحتاج ہیں۔ تو بھلا فیصلہ اپنےحق میں کروانےکےلیےاتناپیسہ کہاں سےلائیں۔
واپس گھر آتےوقت راستہ بھر ان کےدماغ میں وکیل کی باتیں گونجتی رہیںاور آنکھوں کےسامنےجیل کی سلاخیں منڈلاتی رہی ۔ اُس وکیل کو اُنھوں نےگذشتہ پانچ سالوں میں چار پانچ لاکھ روپیہ فیس کےطور پر دیا ہوگا ۔ لیکن وہ اب بھی فیس مانگ رہا ہےاور صاف کہہ رہا ہےاگر اُنھوں نےفیس کا انتظام نہیں کیا تو فیصلہ اُن کےخلاف ہوسکتا ہے۔
گھر واپس آئےتو بیوی نےترش لہجےمیں پوچھا ۔
” وکیل کےپاس گئےتھے؟ “
” ہاں ! “
” اس نےکیا کہا ہے؟ “
” کہہ رہا ہےاگر ہم نےفیس کا انتظام نہیں کیا تو فیصلہ ہمارےحق میںنہیں ہوپائےگا ۔ “
” گھر میں کھانےکےلالےپڑےہیں ، میں کس طرح گھر چلا رہی ہوں ‘ میرا حال مجھ کو معلوم ہے۔ ایسےمیں بھلا فیس کا انتظام کہاں سےہوسکتا ہے۔ اس کیس سےتو اب طبیعت بیزار ہوگئی ہے۔ دوٹوک جو بھی فیصلہ ہوجائےتو چھٹی مل جائےگی ۔ رشوت لیتےوقت آپ کو یہ سوچنا چاہیئےتھا کہ اس برےکام کی وجہ سےآپ پر ہمارےگھر پر یہ برا وقت بھی آسکتا ہے۔ “
بیوی کی باتیں اُنھیں سوئی کی طرح چبھتی محسوس ہوئی ۔
اب بیوی بار بار اُنھیں کوستی ہےکہ اُنھوں نےرشوت کیوں لی ۔ رشوت لینےکا غلط کام کیوں کیا۔ جس کی وجہ سےوہ اِس مصیبت میں پڑےہیں ۔
لیکن جب وہ اِس کےلئےنئی نئی ساڑیاں ، بچوں کو اچھےاچھےکپڑے، گھر کےلئےقیمتی سامان لائےتھےاُس وقت بیوی نےنہیں پوچھا کہ آپ کی تنخواہ تو اتنی کم ہے‘ ہماری آمدنی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہےپھر یہ اتنا قیمتی سامان اور اِس کےلئےاتنا پیسہ کہاں سےآتا ہے؟ جب لوگ گھر پر ان سےملنےکےلئےآتےتھےتو وہ ان کی چائےپانی اور خوب خاطر مدارات کرتی تھی ۔ کبھی اس نےانھیں اس بات کےلئےنہیں ٹوکا کہ یہ لوگ ان سےملنےگھر پر کیوں آتےہیں ۔ آفس کا کام ہےتو آفس میں کیوں نہیں ملتے؟
بڑی بڑی رقمیں جب وہ بیوی کےپاس رکھنےکےلئےدیتےتھےتو بیوی نےکبھی نہیں پوچھا تھا کہ اِتنی بڑی رقم کہاں سےآئی ؟ اور اب بات بات پر اُنھیں اِس بات کےلئےطعنہ دیتی ہے۔ شاید اس وقت وہ اُنھیں ایک بار بھی ٹوک دیتی تو جس راستےپر وہ چل رہےتھےاس سےواپس مڑنےکےبارےمیں سوچتے۔
پانچ سال میں وہ کتنی بدل گئی تھی ۔
صرف بیوی کو کیوں دوش دیں ؟ گھر کا ہر فرد بدل گیا تھا ۔
تینوں بچےبھی اب اُنھیں خاطر میں نہیں لاتےتھے۔
جب انھیں رشوت لیتےگرفتار کیا گیا ہےاور سروس سےمعطل کردیا تھا ‘ اُس وقت بڑےلڑکےنےایس ۔ ایس ۔ سی پاس کیا تھا ۔ وہ پڑھنےلکھنےمیں بہت ہوشیار تھا ۔ اسےوہ انجینئر بنانا چاہتےتھےاور اس کےلئےاُنھوں نےپورا انتظام کرلیا تھا ۔ ایک بڑےکالج کی پوری فیس اُن کےپاس تیّار تھی ۔
مگر وہ گرفتار کرلئےگئےاور حوالات جانےسےبچنےکےلئےاُنھیں پولس کو وہ ساری رقم دینی پڑی ۔ رقم دینےکا صرف یہ فائدہ ہوا کہ ان کےخلاف آگےاور کوئی انکوائری نہیں ہوسکی ۔ ورنہ ان کی ہر چیز کی انکوائری کا آرڈر تھا ۔
لڑکا انجینئرنگ کالج نہیں جاسکا ، اُس نےگیارہویں میں داخلہ لےلیا ۔ لیکن چھ مہینےکےبعد ہی ایسےحالات پیدا ہوگئےکہ اسےکالج چھوڑنا پڑا اور گھر چلانےکےلئےمجبوراً وہ چھوٹےموٹےکام کرنےلگا ۔ چھوٹا لڑکا دسویں میں فیل ہوگیا ۔ اس کی وجہ سےوہ آگےتعلیم جاری نہیں رکھ سکا ، نہ کوئی کام کرسکا ۔ آوارہ لڑکوں کی صحبت میں پڑگیا ۔ اُس کےبارےمیں اُنھیں پتا چلا کہ وہ غلط دھندےبھی کرنےلگا ہے۔ کئی بار اُسےپولس پکڑ کر لےگئی ۔ لیکن اُسےچھڑانےکےلئےاُنھیں پولس اسٹیشن جانےکی ضرورت محسوس نہیں ہوئی وہ خود ہی چھوٹ کر اور سارےمعاملات کو نپٹا کر آگیا یا وہ جن لوگوں کےساتھ رہتا تھا اُنھوں نےہی اُسےرِہا کرالیا ۔
چھوٹی لڑکی کا دِل بھی اسکول کی پڑھائی میں نہیں لگتا تھا ۔
اُس نےپڑھائی چھوڑ دی اور سلائی سیکھنےلگی ۔ اِس کےبعد وہ چھوٹےموٹےکام کرنےلگی ۔
پھر اس کےبعد اُنھیں پتا چلا کہ وہ آوارہ لڑکوں کےساتھ بدنام جگہوں پر گھومتی ہے، رات دیر سےگھر واپس آنےلگی تو ایک بار اُنھوں نےاُسےٹوکا جس پر وہ اُن سےجھگڑا کرنےلگی ۔
” میں کام کرنےکےلئےگھر سےباہر جاتی ہوں تاکہ دو پیسےملےتو گھر چل سکے۔ آپ کی طرح گھر میں بیٹھی نہیں رہتی ہوں ۔ “ ماں بھی لڑکی کی طرف داری کرنےلگی۔
” خود تو کوئی کام دھندا نہیں کرتے‘ دِن بھر گھر میں بیٹھےرہتےہو ، ہم گھر چلانےکےلئےکوئی چھوٹا موٹا دھندہ کرتےہیں تو ہمارےپیچھےپڑجاتےہو ۔ “
ماں بیٹی کی طرف داری کررہی تھی ۔ اس کی وجہ وہ جانتےتھے۔ کیونکہ وہ بھی بیٹی کےرنگ میں بہت پہلےہی رنگ چکی تھی ۔
اُن کےمعطّل ہونےکےایک سال بعد ہی وہ چھوٹےموٹےکام کرنےکےلئےگھر سےباہر جانےلگی تھی ۔
کچھ دِنوں کےبعد ہی اُنھیں رپورٹ ملنےلگی تھی کہ وہ کام کی آڑ میں آوارہ گردی کرتی ہے۔
ایک دوبار اِس بات پر اُن کا جھگڑا بھی ہوا تھا ۔ اُس کا جواب تھا ۔
” ٹھیک ہے، میں گھر میں رہتی ہوں ، تم جاو ¿ کوئی کام کرو ۔ کچھ کما کر لاکر دو اور پہلےکی طرح گھر کا خرچ چلاو ¿ ۔ “ یہ ایسا جواب تھا جس کو سن کر وہ بےحس ہوگئے۔ وہ کام کرنےکےلئےگھر سےباہر جائیں یہ ٹھیک ہے۔ لیکن وہ کیا کام کریں ؟
آدھی زندگی سرکاری نوکری کرتےگذری تھی ۔ اب وہ دُوسرا کیا کام کرسکتےتھے، کسی دوکان پر سیلس مین کا کام کرسکتےتھےنہ کسی پرائیویٹ آفس میں کلرک کا ۔ ایک ادھیڑ عمر شخص کو کام پر رکھنےسےبہتر وہ کسی نوجوان کو کام پر رکھنا پسند کرتےتھے۔
جہاں وہ پہچان لئےجاتےاُن کےساتھ جانوروں سا سلوک کیا جاتا تھا ۔
” ارےشندےصاحب ! آپ ہمارےیہاں نوکری کریں گے؟ آپ تو سارےشہر کو نوکر رکھ سکتےہیں ۔ اِس لئےہمارےیہاں نوکری کرکےاپنی شان کیوں جھوٹی کرنا چاہتےہیں ؟ “
مایوسی سےواپس مڑتےتو ایک بازگشت پیچھا کرتی ۔
” ارےایک حرامی سرکاری آفیسر ہے، بنا رشوت کےکوئی کام نہیں کرتا تھا ۔ رشوت لیتےہوئےپکڑا گیا ‘ آج کل معطل ہے۔ بہت لوگوں کو ستایا ہےاب اس کےپاپوں کی سزا اُسےمل رہی ہے۔“
اُنھیں محسوس ہوتا جب وہ کُرسی پر براجمان تھےتو جو لوگ اُن کےساتھ ادب سےپیش آتےتھے، اُن کی عزت کرتےتھے، اُنھیں بار بار سلام کرتےتھے، آج اُنھیں دیکھ کر نفرت سےمنہ پھیر لیتےہیں۔اگر وہ خود سےاُن سےبات کرنےکی کوشش کرتےہیں تو وہ اُن کےزخموں کو کُرید کر اُن پر نمک چھڑکتےہیں ۔
” کہیئےشندےصاحب ‘ کیسےہیں ؟ “رشوت لیتےپکڑےگئےتھےنا ؟نوکری تو جاتی رہی ‘ سنا ہےجیل کی ہوا کھانی پڑےگی ۔اب کس طرح گذر بسر ہوتی ہے؟ کیا آج کل آپ کوئی کام تلاش کررہےہیں ؟۔ اگر مل جائےتو برائےکرم وہاں بھی وہی کام مت کیجئےگا ۔ وہ سرکاری دفتر تھا ، جہاں آپ حاکم تھے، ہر جگہ آپ حاکم نہیں ہوسکتے۔ “
اِن طعنوں کی وجہ سےاُنھوں نےکہیں آنا جانا ہی چھوڑ دیا تھا ۔ گھر میں بیٹھےرہتےاکیلے، کیونکہ گھر میں کوئی نہیں ہوتا تھا ۔ بیوی کام پر چلی جاتی تھی ۔ بڑا لڑکا بھی کام پر ہی جاتا تھا ۔ چھوٹا لڑکا اور لڑکی کہاں آوارہ گردی کرتےرہتےتھے‘ اُن کو ٹوکنےکی ان میں ہمت بھی نہیں تھی ۔
ایک زمانہ تھا ‘ ان کا بڑا دبدبہ تھا ۔
وہ ایسےمحکمےمیں تھےجہاں پیسہ ہی پیسہ تھا ۔ مجبور، ضرورت مندافراد وہاں پیسہ دےکر ہی اپنا کام کرواتےتھےاور اُنھوں نےبھی پیسہ لےکر کام کرنےکا اپنا اُصول بنالیا تھا ۔
جس سےمطلوبہ رقم مل گئی اس کا کام منٹوں میں ہوگیا جس نےپیسےنہیں دئےسالوں تک اُن کےآفس کےچکّر کاٹتا رہا ۔
وہ غلط صحیح ہر طرح کا کام کرتےتھے۔ صحیح کام کرنےکی بھی قیمت ادا کرنی پڑتی تھی ۔ غلط کاموں کےلئےتو کچھ زیادہ ہی قیمت دینی پڑتی تھی ۔
گھر میں دولت کی ریل پیل تھی ۔ وہ اپنےساتھ آفس سےروزانہ ہزاروں روپیہ لاتےتھے۔
بیوی قیمتی کپڑوں اور زیورات میں لدی جارہی تھی ، گھر میں قیمتی آرائشی سامان آرہا تھا ، بچےاِس

چھوٹی سی عمر میں ہزاروں روپیہ روزانہ اُڑا دیتےتھے۔
کچھ لوگ سمجھاتےبھی تھےکہ وہ جس راستےپر جارہےہیں وہ غلط ہے۔ کسی دِن اس کا خاتمہ کسی تاریک غار میں ہوسکتا ہے۔
لیکن اُنھیں کسی کی پرواہ نہیں تھی ۔
اُنھوں نےاس درمیان اپنا رُسوخ بھی بنالیا تھا ۔ اُنھیں یقین تھا اگر ان کےہاتھوں سےکوئی لغزش ہوجائےتو وہ لوگ اُنھیں بچالیں گے۔
لیکن اُنھیں کوئی بھی نہیں بچا سکا ۔
ایک سرپھرےسےاُنھوں نےکام کےلئےرشوت مانگی ‘ اُس نےانکار کیا تو اُسےاتنا مجبور کردیا کہ وہ رشوت دینےکےلئےمجبور ہوگیا ۔ رشوت لےکر اُنھوں نےاس کا کام کیا ۔
لیکن وہ اینٹی کرپشن میں رپورٹ کرچکا تھا ۔
اینٹی کرپشن والےجال بچھا چکےتھے۔ وہ جال میں پھنس گئے۔اور رشوت لیتےہوئےرنگےہاتھوں پکڑےگئے۔
فوراً معطل کردئےگئےاور کیس شروع ہوا ۔
اِس کیس کو کمزور کرنےکےلئےاور خود کو دُوسری کاروائیوں سےبچانےکےلئےاُنھوں نےگھر میں جمع سارا پیسہ لگادیا ۔ کل تک وہ لوگوں سےرشوت لیتےتھے۔
آج وہ خود کو بچانےکےلئےکورشوت دےرہےتھے۔
اُنھوں نےسب کو خرید لیا ۔
لیکن جس سےاُنھوں نےرشوت لی تھی اور جس نےاُنھیں رشوت دیتےہوئےپکڑوایا تھا وہ اڑا رہا ۔
پیسہ یا کوئی بھی دباو ¿ اُسےجھکا نہیں سکا ۔
وہ آج تک اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا جیسےاُس نےاُنھیں برباد کرنےکی ٹھان لی ہو ۔
اور ان پانچ سالوں میں اُس نےاُنھیں پوری طرح برباد کردیا تھا ۔
عزت ، گھر بار ، بیوی بچے، دولت ، شہرت سب تو لُٹ گئی تھی ۔
نیم جان تن پر بس آخری وار ہونا باقی تھا ۔
فیصلہ اُن کےخلاف جائےاور اُنھیں رشوت لینےکےجرم میں سزا ہوجائے۔
اور اُن کی دوبارہ نوکری پانےکی آخری اُمید بھی ٹوٹ جائے۔
جو اُنھوں نےراستہ اپنایا تھا وہ تاریکی بھرا تھا ۔ لیکن وہ اُنھیں روشن محسوس ہوتا تھا ۔ اِس تاریک راستےپر چلتےوہ تاریکی میں گم ہوگئے۔
اِ س لئےاُن کا خاتمہ بھی اِسی تاریکی میں ہونےوالا تھا ۔

٭٭٭٭


پتہ:۔

ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔٢٠ ٣١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)














 

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist.Thane( Maharashtra,India)

Phone:-(02522)256477

Mob:-09372436628

Email:-mmubin123@gmail.com